وقتِ اشاعت: Saturday, 14 June, 2008, 02:07 GMT 07:07 PST |
'اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں'
ہارون رشید،
|
ایک مذہبی جماعت کے رکن گھوڑوں پر لانگ مارچ میں شریک ہوئے |
لانگ مارچ ابھی لانگ لانگ اوے تھا لیکن اسلام آباد کا پریڈ گراؤنڈ تقریباً فل ہوچکا تھا۔
اس جملے کا مزا سلیس اردو زبان میں شاید ایسا نہ ہو تو ملاوٹ ہی بہتر۔ لیکن وکلاء کے لانگ مارچ کے اپنی حتمی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی پنڈال میں دسیوں ہزاروں شرکاء کی موجودگی میں کوئی ملاوٹ نہیں تھی۔
اٹھارہ فروری کے بعد بہت سے مبصرین کے خیال میں دو نومبر کے اقدامات کے خلاف یہ دوسرا ریفرنڈم ثابت ہوا۔ اسلام آباد نے شاید ہی ماضی میں ایسا عوامی اجتماع دیکھا ہو یا آنے والے ایک طویل عرصے تک دیکھ سکے۔
کیا مرد، کیا عورتیں اور کیا نوجوان۔ ہر کسی نے دل کھول کر شرکت کی۔ ایک طویل عرصے کے بعد میاں بیوی اور بچوں کو بطور ایک خاندان کے کسی احتجاج میں شرکت کرتے دیکھا۔
شرکاء میں وکلاء تو تھے ہی شریک بطور ہراول دستے کے لیکن ان کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، سول سوسائٹی اور عام شہریوں کو شریک دیکھا۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی اور غیرمعروف مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا رہے تھے۔
لانگ مارچ کے شرکاء
شرکاء میں وکلاء تو تھے ہی شریک بطور ہراول دستے کے لیکن ان کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، سول سوسائٹی اور عام شہریوں کو شریک دیکھا۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی اور غیرمعروف مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا رہے تھے
|
اگر کمی تھی تو پیپلز پارٹی کی جانب سے بھرپور شرکت کی۔ اس حکمراں جماعت کا ایک آدھ پرچم بھی نظر آیا اور اصرار شاہ جیسے رہنما نے خطاب بھی کیا لیکن دیگر شرکاء کے ساتھ ججوں کی بحالی پر اختلاف پھرپور انداز میں سامنے آیا۔
اصرار شاہ جو معزول چیف جسٹس افتخار میں چوہدری کے ہی ایک جلسے کے موقع پر ایف ایٹ میں خودکش حملے کا نشانہ بنے اور دونوں ٹانگیں کھو دیں مظاہرین کو یقین دلاتے رہے کہ ان کی جماعت ججوں کی بحالی میں سنجیدہ ہے لیکن شرکاء نے ان کی نا ماننی تھی سو نا مانی۔ انہوں نے آئینی پیکج نامنظور، نامنظور کے نعرے بلند کرکے وضاحت کر دی۔
شام پانچ بجے بلکہ اس سے قبل سے آئے ہوئے مظاہرین کے جوش و جذبے کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ کیا مجال کے گزرتے وقت سے ان کی ولولے میں کوئی کمی آئی ہو۔ سٹیج سے پڑھی جانے والی نظمیں ان کے خون کو گرمانے کا سبب بنتی رہیں۔
ایک گھریلو خاتون سارہ ہوتی نے کہا کہ وہ جمہوری معاشرے میں اس طرح کے احتجاج میں شریک ہوکر ہی اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ 'اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔'
No comments:
Post a Comment